دل اور زبان

کہتے ہیں جب لقمان حکیم پڑھ کر فارغ ہو چکے تو اُستاد نے کہا لقمان ! آج ایک بکرا ذبح کرو اور اُس میں سے جو سب سے اچھی چیز سمجھو ، ہمارے لیے پکا لاؑو۔ لقمان نے بکرا حلال کر کے اُس کے دل اور زبان کو خوب اچھی طرح بھون بھان کر اُستاد کے سامنے رکھ دیا۔ اُستاد نے چکھا تو تعریف کر کے کہا ۔ لقمان آج تم آدھے پاس ہو گئے۔

دوسرے دن اُستاد نے فرمایا : آج پھر ایک بکرا ذبح کرو اور اُس میں جو سب سے بڑی چیز پاؤ، وہ ہمارے لیے تیار کر لاؤ۔

اُنھوں نے بکرا ذبح کر کے اب بھی پہلے دن کی طرح صرف دل اور زبان ہی کو چن لیا ۔ مگر اب کے اس ترکیب سے پکایا کہ زبان میٹھی پکائی اور دل کڑوا ۔ اور پھر دونوں کو استاد کے سامنے لا رکھا۔

استاد نے چکھا تو بد مزہ پا کر پوچھا ۔ لقمان ! آج کیا پکا لائے ؟ لقمان نے عرض کی حضور وہی دل اور زبان جو آپس میں موافق نہیں: اُستاد نے فرمایا ۔ جاؤ اب تم بالکل پاس ہو گئے ۔

حکیم لقمان نے دونوں دفعہ کیسی اچھی چیزیں چنیں ۔ بیچ بیچ ایک جیسے دل اور زبان سے بڑھ کر کوئی نعمت لطیف اور لذیذ

نہیں اور نہ ایک دوسرے سے مخالف دل اور زبان سے زیادہ کوئی چیز بڑی اور یکہ مزہ ہے ۔ جس آدمی کا دل اور زبان ایک ہو، دنیا بھی اُس کی عزت کرتی ہے۔

خُدا بھی خوش ہوتا ہے اور جس کی زبان دل سے موافق نہ ہو ۔ دنیا بھی اُسے اچھا نہیں سمجھتی۔ خُدا بھی نا خوش ہو جاتا ہے ۔ بلکہ وہ خود بھی خوش نہیں رہتا۔

More Stories are as Below

چار سال کا بُوڑھا

صفائی نصف ایمان ہے

کام کرنے کی برکت

میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟

میں جھوٹ نہ بولوں گا

غیرت

لالچ کی سزا

سچائی کا انعام

بادشاہ اور غریب میں فرق

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *