احسان کی قید

لوگوں نے ایک دانا سے کہا ۔ کل فلاں شخص آپ کی نسبت ایسی بڑی بڑی باتیں کہہ رہا تھا ، جو آپ کو سخت بدنام کرنے والی ہیں۔  دانا نے فرمایا ۔ تم لوگ تو اچھی طرح مجھ سے واقف ہو۔ کیا اُن باتوں کے متعلق تمھیں یقین آ سکتا ہے کہ وہ درست ہیں

اُنھوں نے کہا ۔ ہرگز نہیں ۔ مگر جناب ہر شخص تو اتنا واقف نہیں کہ اُس کے پیچ جھوٹ میں تمیز کر سکے ۔ بہتر ہے کہ اُس کی زبان کو ادب کی لگام دے دی جائے۔

دانا نے جواب دیا ۔ میں حاکم نہیں کہ سرا دے سکوں ۔ بیکار نہیں کہ نائش کر کے سزا ولا سکوں ۔ پس کوئی اور ہی تدبیر مناسب

ہے ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بکہ زبان بھی آگیا اور دانا نے اُس کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ شربت پلوایا ۔ پنکھا جھلوایا اور اُس کے خوش کرنے کی ایسی باتیں کہیں ، جن سے وہ نہایت خوش ہو کر واپس گیا۔ اُس کے چلے جانے پر شکایت کرنے والوں نے کہا ۔ آپ نے یہ کام بالکل عقل کے خلاف کیا کہ ایسے بکہ زبان دشمن کی اتنی خاطر داری کی ۔

دانا نے جواب دیا کہ تم تم سمجھے نہیں کہ میں نے کی طرح اُس کے دل کو اخلاق کے جیل خانے میں اور زبان کو ادب کی زنجیر میں قید کر لیا ہے ۔ بس اب دو چار ملاقاتوں میں یہ قید اور بھی سخت جائے گی ۔ جس ہو کے بعد اُسے میرے خلاف کہنے کی کبھی ہمت نہ رہے گی

More Stories are as Below

کام کرنے کی برکت چار سال کا بُوڑھا صفائی نصف ایمان ہے

میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ میں جھوٹ نہ بولوں گا غیرت

لالچ کی سزا سچائی کا انعام بادشاہ اور غریب میں فرق

دل اور زبان اچھا لباس اور اچھا شکار

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *